پھولوں کی کیاری میں ننھے بھنوروں کے پیچھے لپکتی معصوم سی گڑیاسب کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ ہلکے گلابی رنگ کی شرٹ کے ساتھ نیلی پینٹ اور سفید جوگرز پہنے وہ کبھی کسی طرف بھاگ رہی تھی اور کبھی کسی طرف۔ کئی دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اس بچی اٹھکیلیوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ آج موسم خوشگوار ہونے کی وجہ سے باغ میں کچھ رونق تھی۔ ورنہ یہاں روٹین میں صرف سینیئر سیٹیزنز ہی دکھائی دیتے تھے جو واک کی غرض سے آتے تھے اور زیادہ وقت کسی بینچ پر بیٹھ کر گزارتے اور چلے جاتے۔ انہی بنچوں میں سے ایک بینچ پر بیٹھے میں انہماک سے اس بچی کو دیکھتے دیکھتے اپنے بچپن کی خوبصورت یادوں میں کھو گئی۔ جب کمپیوٹر، موبائل کا کوئی تصور نہیں تھا۔ گھر میں ٹی وی ایک دور اونچی جگہ پڑا ہوتا تھا اور رات کو سب اکٹھے بیٹھ کر فیملی پروگرام، ڈرامہ اور خبرنامہ دیکھتے تھے۔ زندگی رشتوں اور رونقوں سے بھرپور تھی۔ بچے پارکس میں کھیلتے، تتلیاں پکڑتے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے نظر آتے تھے۔ جب بارش ہوتی تو ہم پانی کے نکاس کی جگہ بند کر دیتے۔ کچھ ہی دیر میں صحن سویمنگ پُول بن جاتا اور ہم اس میں تیراکی کی مہارتیں دکھانے لگتے۔ سکول اور ٹیوشن کے بعد شام کو چھپن چھپائی، کوکلا چھپاکی، برف پانی، ریڈی گو اور سٹاپو کے میچ سجتے۔ وقت بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ اب اگلی نسل کے اپنے کھیل ہیں۔ وہ ہمارے کھیلوں سے نا آشنا ہیں اور ہم ان کے کھیلوں سے۔ زیادہ تر بچے ای گیمز اور سوشل میڈیا سے ہی دل بہلاتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی جسمانی کھیل کھیلنا چاہتا ہے تو اس کی تان کرکٹ پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ جہاں ایک باری لیتا ہے اور باقی گھنٹوں باری آنے کے انتظار میں فیلڈنگ کرتے ہیں۔ ناجانے ان سے اگلی نسل کے کیا کھیل ہوں گے۔ ہو سکتا ہے وہ اس نسل کی گیمز کو بھی پُرانے زمانے کے کھیل سمجھتے ہوئے ناپسند کرنے لگیں اور اس سے بھی جدید دنیا میں کھو جائیں۔ اور۔۔۔ آج موبائل اور ٹیبز میں مگن رہنے والی اس نسل کا کوئی ننھا بچہ جو کبھی کبھار پھولوں اور تتلیوں سے کھیلتا نظر آ جاتا ہے۔۔۔۔۔ یہ منظر بھی قصہ پارینہ ہو جائے۔ لیکن سچ پوچھیں تو۔۔۔ زندگی کا احساس انھی مناظر میں ہے۔
زندگی
