خوشی اور غم۔۔۔
یہ دو جذبات ہماری زندگی پر ہمیشہ چھائے رہتے ہیں۔ ہر انسان ہمیشہ خوش رہنا چاہتا ہے لیکن پھر بھی کبھی حالات، کوئی نقصان، کسی پیاری چیز کا کھو جانا، کسی کا تلخ رویہ ہمیں دکھی کر دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ سکھ دکھ اپنے بس میں کہاں۔ دنیا ہے جنت نہیں ہے، جہاں صرف خوشیاں ہوں گی اور کوئی دکھ نہیں ہو گا۔ یہاں تو خوشیاں اور غم ساتھ ساتھ ہیں۔ بہت حد تک یہ بات درست ہے۔
!لیکن۔۔۔
آج میں بات کروں گی خوشیوں کی چابی کے بارے میں جو انسان کے غموں کو بہت محدود کر دیتی ہے۔ آپ کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ ہر وقت، ہر لمحہ۔۔۔ یہ کنجی حاصل کرنے کے بعد آپ کی بہت سی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔
ہم اس دنیا میں خود کو وابستہ کرتے ہیں، رشتوں، انسانوں، چیزوں، تعلقات اور احساسات کے ساتھ ۔ جس سے ہماری جتنی وابستگی اور محبت ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ جس چیز کو ہم نے اپنی زندگی میں جتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہوتی ہے، اس چیز کے ملنے سے ہمیں اتنی ہی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ مثلاْ اگر اپ کے پاس بائیک ہے اور اچانک آپ کو ایک برینڈ نیو کار مل جاتی ہے تو آپ کی خوشی کا کیا عالم ہوگا۔ لیکن یہی برینڈ نیو کار کسی ایسے انسان کو دی جائے جس کے گیراج میں پہلے سے دس نئی کاریں کھڑی ہیں تو اسے یہ کوئی خاص خوشی نہیں دے گی۔ چیز تو ایک ہی ہے مگر آپ کیلئے بہت زیادہ خوشی کا باعث اس لیے ہے کیونکہ آپ کی زندگی میں اس کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔
چلیں ہم ایک اور مثال لیتے ہیں۔ ایک کرائے کے گھر میں رہنے والے انسان کو دس مرلے کا گھر دے دیا جائے تو اس کیلئے یہ اتنی خوشی کی بات ہو گی گویا اس کی تمام خواہشات پوری ہو گئیں۔ لیکن اگر ایک چالیس کنال کے گھر میں رہنے والے شخص کو اسی دس مرلے کے گھر میں رہنا پڑے تو اس کے لیے اس سے بڑا دکھ کوئی نہیں ہو گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خوشی کا تعلق اس گھر سے نہیں تھا بلکہ اس احساس سے تھا جو اس گھر کی نسبت کسی کے دل میں تھا۔ کرائے پر رہنے والے کے دِل میں اس کی قدر تھی جبھی تو اس گھر نے اس کو خوشی دی۔ لیکن جو شخص چالیس کنال کے گھر میں رہ رہا تھا اس کیلئے یہ گھر کسی ڈربے سے زیادہ نہیں تھااس لیے اس گھر نے اسے دکھ دیا۔
تو بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے دِل میں دنیاوی رشتوں اور دنیاوی چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت دے رکھی ہے جبھی تو ہمیں ان رشتوں اور چیزوں کے ملنے پر خوشی اور دور جانے پر غم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ خوشی کی چابی ہمارے ہاتھ میں رہے اور ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غمگین نہ ہوں تو ہمیں اپنے دل سے دنیا و مافیہا کی اہمیت و محبت نکال کر اس کے خالق و مالک کی محبت پیدا کرنا ہو گی۔ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنا ہوگی۔ ہمارا رب ہم سے کبھی دور نہیں ہوگا۔ اس رشتے کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ کچھ مل جائے تو میرے رب کی عطا۔ دِل الحمدللہ پکارے گا۔ کچھ چھن جائے تو میرے رب کی مصلحت۔ دِل الحمد للہ پکارے گا۔ یہی خوشی کی چابی ہے۔ محبت، لگاوٗ اور تعلق صرف اللہ اور اسکے پیارے نبی سے۔ کیونکہ یہی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا ہے۔ دنیاوی چیزوں کیلئے رنجیدہ یا خوش ہونا اسے زیب نہیں دیتا۔ اللہ کے نزدیک جس دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، اس دنیا کو اپنے دِل میں محبت اور اہمیت دینا خدا کے خلیفہ کے شایانِ شان نہیں۔
توجس شخص نے اپنے دِل سے دنیا کی اہمیت نکال دی اس نے خشیوں کی چابی حاصل کر لی۔
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ ۔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ
سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور تقوی اختیار کیا۔