میرے خیالات

جب میں اپنی عملی زندگی دیکھتی ہوں تو خود کو اس قابِل نہیں پاتی کہ دوسروں کو اچھی بات کی تلقین کروں۔ کسی کو بتاؤں کہ ہمارا دین ہمیں کیا کہتا ہے۔ کِس معاملے میں قرآن اور حدیث کا کیا حکم ہے۔ دِل کہتا ہے پہلے خود کو تو مکمل کر لوں۔ سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے ، ہر گناہ سے بچنے کا بار بار عہد کرنے کے باوجودبھی،  نجانے کتنی غلطیاں اور کتنے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کتنی ہی بار کوتاہی ہو جاتی ہے۔ نجانے کب کہاں کس کا دِ ل دکھا دیتی ہوں۔  یہ خیال آتے ہی قلم رُک جاتا ہے۔ آواز دَب جاتی ہے۔ کسی کو اچھی بات بتانے کیلئے جس اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ دِل زور سے دھڑکتا ہے  کہ دوسروں کو اس بات کی کیسے  نصیحت  کر رہی ہوں جب خود میں ابھی کمی ہے۔ اپنی ذات کو تو پہلے مکمل دین کے سانچے میں ڈھال لوں پھر دوسروں کو سکھاؤں۔

!لیکن پھر

:یہ پیاری سی حدیث ذہن میں آ جاتی ہے

نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ کَمَا سَمِعَ. فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ   (ترمذی، ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں) تک ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں علم پہنچایا جائے (براہِ راست) سننے والے سے زیادہ اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

یہ حدیث مبارکہ ذہن میں آتے ہی قلم میں حرکت آ جاتی ہے، آواز میں اعتماد آ جاتا ہے۔ مجھے دین کی بات دوسروں کو بتانی چاہئے ۔ ہو سکتا ہے دوسرےمجھ سے زیادہ عمل کرنے والے ہوں۔ میرے دین کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ اگر یہ سوچ لوں  کہ اپنی ذات کی ساری خامیاں دُور  کرکے پھر دوسروں کو دین کی بات بتاؤ ں گی تو شائد ساری زندگی خود کو ہی سدھارنے میں لگ جائے اور پھر بھی میں تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر نہ پہنچ سکوں۔لہذا میں نے جو سیکھا ہے، جو سیکھ رہی ہوں ، آگے سکھانا چاہئے۔ اس طرح خود بھی عمل کا شوق بڑھے گا ، آیات و احادیث ہمہ وقت ذہن میں رہیں گی اور دوسروں کی دنیا و آخرت  سنوارتے سنوارتے یقیناً اپنی دنیا اور آخرت بھی سنور جائے گی۔  

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started