Design a site like this with WordPress.com
Get started

ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریمﷺکی سیاسی زندگی۔ مختصر اور جامع خلاصہ

بطور ملت، امت مسلمہ کے سیاسی اور کا آغاز ہجرت مدینہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہجرت مدینہ سے ہی کیا گیا۔ اس سے پہلے مکہ میں مسلمان اقلیتی حیثیت رکھتے تھے اور کفار کے ظلم وستم کاشکار تھے۔ مدینہ میں مسلمان اکثریت میں تھے لہذا اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہجرت کے بعد بھی کفار مکہ مسلسل مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے تھے اور یہودیوں اور مدینہ کے دیگر باشندوں کو خطوط کے ذریعے مسلمانوں سے جنگ پر ابھار رہے تھے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے نبی کریم ﷺ نے ضروری اقدامات فرمائے۔ سب سے پہلے مدینہ میں آباد مختلف مذاہب کے پیروکاروں اور ارد گرد کے قبائل کو ایک معاہدے کا پابند کر کے کمال حکمت سے اندرونی اضطراب پر قابو پانے کی کامیاب کوشش فرمائی ۔ یہ معاہدہ تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں سب نے نبی کریم ﷺ کو ریاست کے سر براہ کی حیثیت سے تسلیم کیا اور مدینہ پر حملے کی صورت میں مل کر دفاع کرنے کا عہد کیا۔ اس معاہدے کے بعد آپ ﷺ نے کفار مکہ کی اہل اسلام کے خلاف سازشوں کو روکنے کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ اس کا آسان اور مؤثر طریقہ یہ تھا کہ ان کی تجارتی شاہر اوپر اپنی گرفت مضبوط کی جائے ، جو بحر احمر کے کنارے کنارے یمن سے شام کی طرف جاتی تھی۔ اس شاہراہ پر اہل مکہ طائف اور دوسرے قبائل کے تجارتی قافلے اپنا بیش قیمت سامان لے کر جاتے تھے۔ مالی تجارت سے لدے ہوئے دو دو ہزار اونٹوں کے قافلے بیک وقت چلتے تھے۔ نبی کریم  ﷺنے پہلے اس شاہراہ کے ارد گرد آ باد قبائل سے دوستی کے معاہدے کیے تاکہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی صورت میں قریش ان قبائل کو ساتھ نہ ملا سکیں۔ پھر کفار مکہ کو مرعوب کرنے کیلئے ان شاہراہوں پر چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کر دیئے۔  عبد الحمید صدیقی لکھتے ہیں کہ قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر تیاریاں شروع کر دیں تا کہ اسلام کی طاقت کو کچلا جاسکے۔ لیکن اس فیصلہ کن جنگ سے پہلے انھوں نے مدینہ کے ارد گرد موجود غیر مسلم قبائل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کیلئے ان قبائل پر مسلمانوں کے مقابلے میں اپنی طاقت کا اظہار ضروری سمجھا۔

 نبی کر یم ﷺ ان کی سازشوں سے آگاہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے اہلِ مکہ پر دھاک بٹھانے کیلئے ان کی تجارتی شاہراہ کی طرف چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے۔ اپنے قافلے  کی حفاظت کیلئے ہی مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا اور اس طرح بدر کے مقام پر حق و باطل کا پہلا معرکہ پیش آیا جس میں اللہ تعالی نے اپنی مدد و نصرت سے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی۔ اگلے سال احد کے مقام پر  جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا البتہ جنگ بغیر کسی جیت ہار کے ختم ہو گئی۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی مسلمانوں نے خندق کھود کر نہایت حکمت عملی سے مدینہ کی حفاظت کی۔ پھر ۶ھ/ ۶۲۸ء میں مسلمان نبی کریم ﷺ کی معیت میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ روانہ ہوئے ۔ ان کی تعداد چودہ سو سے پندرہ سو کے درمیان تھی اور قربانی کیلئے ستر اونٹ ساتھ تھے ۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر عمرہ کی نیت سے احرام بندھا گیا۔ لیکن جب مکہ والوں کو نبی کریم ﷺ کی آمد کا پتہ چلا تو وہ  سمجھے کہ آپ مکہ پر قبضے کی غرض سے آئے ہیں لہذا آپ کو مکہ داخلے سے روک دیا گیا اور عمرہ کی ادائیگی کی اجازت نہ دی گئی۔ باہمی بات چیت اور مذاکرات کے بعد فریقین میں صلح کا ایک معاہد ہ ہو گیا جس میں یہ طے پایا کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ ادا کر لیں۔ نیز آئندہ د س سال کیلئے فریقین میں جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور طے پایا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہے مکہ والوں کے ساتھ مل جائے اور جو چاہے نبی کریم ﷺ کا حلیف بن جائے۔  قرآن  نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔

اس معاہدے کے نتیجے میں جنگ بندی ہونے کے باعث امن و سکون ہو گیا اور نبی کریم نے دوسرے ممالک کو بھی بذریعہ خطوط اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا۔ صلح حدیبیہ کے بائیس ماہ  بعد قریش اور ان کے حلیف بنو بکر نے ایسی حرکت کی جس کے باعث حدیبیہ  کا معاہدہ صلح کا لعدم ہو گیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ کے نتیجے میں بنو بکر  نے قریش کے ساتھ اور بنو  خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد بنو  خزاعہ  بہت امن و سکون کے ساتھ رہ رہے تھے جب ایک رات بنو بکر نے قریش کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ پر شب خون مارا  اور ان کا قتل عام کیا۔ بنو خزاعہ  نے نبی کریم ﷺ  کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ظلم وستم کی یہ روداد بیان کی اور مدد کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے ایک قاصد کو مکہ روانہ فرما کر مکہ والوں کے سامنے یہ تجاویز پیش کیں:

۱ بنو خزاعہ  کے مقتولوں کی دیت اداکر یں۔        یا

۲۔بنو بکر سے اپنی دوستی کا معاہدہ ختم کر دیں تا کہ مسلمان ان سے براہ ر است بدلہ لے سکیں۔ یا

۳۔ صلح حدیبیہ کو   اعلانیہ طور پر کالعدم قرار دے دیں۔

یہ انتہائی منصفانہ تجاویز تھیں۔ اہل مکہ نے پہلی دونوں تجاویز کورد کرتے ہوئے صلح حد جیسے کو اعلانیہ طور پر کالعدم قرار دے دیا۔  قریش کی اسی بد عہدی کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی اور اہل مکہ کی طرف سے ہتھیار ڈالنے پر سب کیلئے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ یوں ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہو گیا اورنبی کریم ﷺ نے کعبہ میں موجود تمام بتوں کو توڑ دیا۔ آپ ﷺ کی رحمدلی سے متاثر ہو کر اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ مکہ فتح ہونے سے کفار مکہ کار عب ود بد بہ اور اسلام کی مخالفت ختم ہو گئی اور دیگر قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ پھر دو سال بعد دس ہجری میں نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ حج بیت اللہ ادا کیا۔اس موقع پر آپ نے ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے ۔اس خطبہ میں آپﷺ نے مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو سے متعلق نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: اے اللہ کیا میں نے تیرے احکامات بندوں تک پہنچادیئے۔ سب حاضرین نے عرض کیا کہ جی ہاں ، آپ ﷺنے احکامات الٰہی ہم کو پہنچادیئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ ہو جا۔  حجۃ الوداع کے دو ماہ بعد ربیع الاول 11 ہجری میں نبی کریم ﷺ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔اس وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔  اور آپﷺکی صرف تئیس برس کی تبلیغ کےنتیجے میں تقریباً پورا عرب اسلام کے سائے تلے اکٹھا ہو چکا تھا۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: