Design a site like this with WordPress.com
Get started

(ایک مختصر تعارف) خلافت راشده

خلافت راشدہ کا دور امت مسلمہ کا شاندار دور تھا اور آج بھی مسلمان  راہنمائی کیلئے دور نبوی کے بعد خلافت راشدہ کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ خلافت راشدہ کے دور کی اہمیت نبی کریم ﷺ کی اس حدیث مبار کہ سے بھی ثابت ہوتی ہے

فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين

تم پر لازم ہے کہ میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کرو۔

خلیفہ کے انتخاب کے طریقے

خلافت راشد ہ میں خلیفہ کے انتخاب کا کوئی ایک طریقہ رائج نہیں رہا بلکہ مختلف طریقوں سے خلیفہ کا انتخاب ہوتارہا۔ نبی کریم ﷺ نے کسی خلیفہ کو نامزد نہیں فرمایا تھا۔ امت نے خود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ نامزد فرمایا۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا انتخاب شوریٰ کونسل کے ذریعے ہوا اور آپ کی شہادت کے بعد امت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے لیے خلیفہ منتخب کر لیا۔

حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ

جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو آپکو بہت سی مشکلات کا سامنا کرناپڑے جن پر آپ نے بہت دانشمندی سے قابو پایا۔بعض قبائل مرتد ہو نا شروع ہو گئے تھے اور بعض نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آپ نے مانعینِ  زکوۃ سے جہاد فرمایا اور مسیلمہ کذاب اور دیگر مدعیان نبوت سے جنگ کر کے فتنہ ارتداد کا تدارک کیا۔ آپ کا دور مسلمانوں کے لیے بہت بابر کت دور تھا۔۔ آپ نے امت مسلمہ کومتحد کیا اور ان عناصر پر قابو پایا جو امت کو انتشار کی طرف لے جارہے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےخلیفہ کا منصب سنبھالا۔ آپ کے دور خلافت میں فتوحات اور تعمیر و ترقی کا شاندار سلسلہ شروع ہوا۔ اسلامی سلطنت میں بہت وسعت آئی۔ کئی نئے شہر تعمیر کیے گئے۔ آپ نے باقاعدہ ایک سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا جس کے مطابق ریاست کا نظم و نسق قائم کیا۔ ہجری کیلنڈر کا آغاز کیا۔ باقاعدہ فوج کا ادارہ قائم کیا اور ان کیلئے چھاؤنیاں بنوائیں۔  خلیفہ کے انتخاب کیلئے  کونسل کا طریقہ کار بھی آپ نے ہی شروع کیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ

 تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور کے ابتدائی چھ سال بہت امن و سکون ، قوت اور سیاسی استحکام کے سال تھے۔ لیکن بعد کے سالوں میں سلطنت اسلامیہ انتشار کا شکار ہونے لگی اور سیاسی سازشیں سر اٹھانےلگیں  ۔ سازش کا اصل سر غنہ عبداللہ بن سبا تھا جس نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اقر با  پروری کا الزام لگا یااور یہ پروپیگنڈ اشروع کر دیا کہ خلافت کے اصل حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت پر ناحق قبضہ کیا ہوا ہے۔ عبداللہ بن سبا کے بارے میں طبری کی روایت ہے کہ یہ صنعاء کا یہودی تھا جو خلافت عثمانی میں ہی مسلمان ہوا اور پھر شہر شہر جا کر لوگوں کو گمراہ کر ناشروع کر دیا۔ کئی لوگ اس کے اس پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر اس کی تحریک کا حصہ بنتے چلے گئے۔ جب لوگوں کی بہت بڑی تعد اد بغاوت پر آماد ہ ہو گئی تو وہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم طبیعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے ۔انھی سازشوں کے نتیجے میں بالآ خر آپ کو 35ھ میں شہید کر دیا گیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ

آپ کی شہادت کے بعد لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے آپ کو خلیفہ منتخب کر لیا۔ یہاں ایس پوزیٹو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حمایتیوں کے موقف کا ذکر کیا ہے کہ ان کے نزدیک خلافت کے اصل حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے اور پہلے تینوں خلفاء خلافت کے مجاز نہیں تھے اور یہی حمایتی بعد میں شیعان علی کہلائے۔  حمایتیوں کا یہ گروہ جنگ صفین میں ظاہر ہوئے تھے جب عامۃ المسلمین کے علاوہ دو گروہ اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے اہمیت حاصل کر گئے۔ ایک وہ گروہ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو واقعہ حلیم میں قصور وار سمجھ کر آپ کی اطاعت سے مطلق انکار کرتے تھے اور دوسرے وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معصوم عن الخطاء کہتے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو اللہ اور رسول اللہ ملک کی فرمانبرداری پر بھی تری دینے کیلئے تیار تھے۔ پہلا گروہ خوارج اور دوسرا شیعان علی کہلایا۔  ان گروہوں میں وہی لوگ شامل تھے جنھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے خود کو حکومت کا حصہ بنالیا تھا۔ اس وقت یہ لوگ بہت مضبوط تھے جبکہ مسلمانوں کی طاقت بکھری ہوئی تھی اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ فوری طور پر ان لوگوں کو سزا نہ دے سکے۔ جیسا کہ طبری کی روایت ہے کہ قاتلین عثمان نے اہل مدینہ کو دھمکی دی کہ دودن میں اپنا خلیفہ منتخب کر وور نہ ہم علی ،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سمیت بہت سے لوگوں کو قتل کر دیں گے۔ لہذا  اہل مدینہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیا۔  حضرت علی رضی اللہ عنہ  نےبہت سی مشکلات کےباوجود امور سلطنت کو بہت ہوشمندی سے سنبھالا اور آہستہ آہستہ باغیوں کی قوت کو کمزور کرتے ہوئے حکومت سے ان کا اثر ور سوخ کم کرنا شروع کر دیا۔ یوں باغی مسلمانوں پر حکومت کرنے کی سازش میں ناکام ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو ۴۰ھ میں خوار ج کے گروہ نے شہید کر وادیاجو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہی لوگ تھے۔  آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ساتھ ہی خلافت راشدہ کا وہ پر شکوه دور ختم ہو گیا جس کی خصوصیات کے غیر مسلم بھی قائل ہیں اور جو آج بھی مسلمانوں کیلئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے ۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s

%d bloggers like this: