شادی کے بعد جوائنٹ فیملی سسٹم میں عائشہ ایڈجسٹ کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ سب کو خوش رکھنے کیلئے لگی رہتی۔ کبھی کسی کے چہرے پر اپنے لیے ناراضگی دیکھتی تو بات کی تہہ تک پہنچ کر اس ناراضگی کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتی۔
شادی کو کئی مہینے گزر چکے تھے۔۔اچھی بہو، اچھی بھابھی، بننے کے چکر میں وہ بھول چکی تھی کہ اسے اچھی بیوی بھی بننا تھا۔
ایک شام دیور صاحب نے آلو کے پراٹھوں کی فرمائش کی تو اچھی بھابھی فوراً سامان تیار کرنے لگی۔
میاں صاحب گھر آئے تو روز کی طرح آج بھی وہ کچن میں مصروف تھی۔ اسے احساس تھا ان کی تھکن کا اسی لیے تو پہلا پراٹھا انھیں دیا۔۔۔ اور پھر باقی گھر والوں کیلیے بنانے لگی۔
پراٹھے مزے کے تھے۔ ہر فرد ایک کے بعد دوسرے پراٹھے کی فرمائش کر رہا تھا یہاں تک کے پراٹھوں کا سامان ختم ہوا تو عائشہ کو سانس ملا۔۔۔ خیر خود بھی کھانا کھا کے رات ساڑھے دس بجے اپنے کمرے میں گئی تو حسن انتظار کرتے کرتے سو چکے تھے۔۔
اگلی صبح وہ بغیر ناشتے کے کام پر نکل گئے۔۔ اور اگلے دو دن انہوں نے عائشہ سے کوئی بات نہ کی۔
اس شام گھر آئے تو عائشہ نے زور دے کر پوچھا کہ آخر کیوں ناراض ہیں مجھ سے
تمہیں کیا لگے۔۔۔ تم کھلاؤ جا کے سب کو آلو کے پراٹھے۔۔۔
حسن نے بالآخر اپنی بھڑاس نکال دی۔۔۔
تو یہ بات ہے۔۔ انھیں میرا وقت چاہئیے جو میں چاہ کر بھی نہیں نکال پاتی۔۔
اور پھر عائشہ وقت نکالنے لگی۔۔ اپنے سر اٹھائی ذمہ داریوں میں کمی لا کر وہی وقت حسن کے ساتھ گزارنے لگی۔۔ کبھی چھت پر چہل قدمی کرنا۔۔ کبھی باہر آئس کریم کھا نے چلے جانا۔۔ حسن کے گھر آتے ہی وہ سب کام چھوڑ دیتی۔۔ دونوں میں انڈرسٹینڈنگ بڑھنے لگی۔۔ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے لگے۔۔
اس نے نوٹ کیا کہ اس کی اس پریکٹس پر سسرال والوں کے مزاج بگڑ رہے ہیں لیکن اس نے صبر سے کام لیا۔۔۔۔
کیونکہ آلو کے پراٹھوں نے اسے یہ بات سمجھا دی تھی کہ اپنا وقت اس اینٹ پر انویسٹ کرنا ضروری ہے جو اس گھر میں اس کی مضبوطی اور خوشیوں کی ضامن ہے۔۔
آلو کے پراٹھے
