Design a site like this with WordPress.com
Get started

دنیا بھر میں پائے جانے والی دس حیرت انگیز روایات

  اٹلی میں ہونے والی مالٹوں کی جنگ

آپ حیران ہوں گے سن کر اٹلی میں ہر سال تین دن تک ایک جشن منایا جاتا ہے جس میں اورنج وار ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ دو گروپس بنا کر ایک دوسرے پر اورنجز سے حملہ کرتے ہیں۔ اس ایوینٹ کو (کارنیویل ڈی ایوریا) کہا جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اٹلی کے لوگ یہ جشن ایک غاصبانہ شہنشاہیت سے آزادی کی یاد میں مناتے ہیں۔

دنیا میں ہونے والی یہ سب سے بڑی فوڈ بیٹل ہے۔  لوگ اس بیٹل کو بہت انجوائے کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس بیٹل کو جوائن کرنے والے جہاں دوسروں کو مالٹے مارتے ہیں، وہاں دوسرے بھی انھیں مارتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں میں مالٹے کی چوٹ کھانے کا حوصلہ نہیں ہوتا وہ تھوڑا دور کھڑے ہو کر صرف نظارہ دیکھتے ہیں۔

سپین میں ہونے والا بے بی جمپنگ فیسٹول

سپین کے ایک گاؤں میں سال میں ایک بار یہ عجیب و غریب فیسٹیول ہوتا ہے جس میں ایک سال پہلے پیدا ہونے والے بچوں کو ایک قطار میں لٹایا جاتا ہے اور ایک شخص شیطان کے بھیس میں ان کے اوپر سے چھلانگ لگاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ شیطان ان بچوں کے گناہ، مصیبتیں اور بیماریاں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ پہلے پہل تو یہ رسم صرف ایک گاؤں تک محدود تھی لیکن اب دنیا بھر سے لوگ اپنے بچوں کو سپین لے کر جاتے ہیں اور ان کے اوپر سے شیطان کا جمپ لگواتے ہیں

۔  ڈنمارک کی دارچینی والی برتھ ڈے پارٹی

دوستو ڈنمارک میں جب کوئی پچیس سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود کنوارہ ہوتا ہے تو اس کے دوست اور رشتے دار اس کی پچیسویں سالگرہ پر اسے دارچینی میں نہلا دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے مصلحہ فروش لوگوں کو ملکوں ملکوں سفر کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے وہ بیچارے کنوارے ہی رہ جاتے تھے۔

اس رسم میں وہ کنوارا تو بیچارہ دارچینی میں نہا جاتا ہے لیکن اس کے دوست اس کھیل کو بہت اجوائے کرتے ہیں۔ اور ہاں اگر تیس برس کا ہونے تک بھی اس کی شادی نہ ہو تو دارچینی کو کالی مرچوں سے بھی بدلا جا سکتا ہے۔

۔ تھائلینڈ میں ہونے والا مونکی بوفے فیسٹیول:

سینٹرل تھائلینڈ کے لوب پوری علاقے میں واقع خمر مندر بندروں سے بھرا ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں ہر سال نومبر کے آخری اتوار مونکی بوفے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہب کا یہ مندر بھگوان ہنومان سے منسوب ہے جس کی شبیہہ بندر جیسی ہے۔ لوگ ان بندروں کے لیے اس عالیشان کھانے کا اہتمام کر کے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقے میں خوش قسمتی اور رزق انھی بندروں کی وجہ سے ہے۔

۔ جرمنی میں شادیوں پر برتن توڑنا:

سننے میں کافی عجیب لگتا ہے کہ شادی کی تقریب میں برتن توڑے جائیں۔ لیکن ساؤتھ جرمنی میں ایسا ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے ایک گرینڈ تقریب رکھی جاتی ہے جس میں برتن توڑے جاتے ہیں۔ ان برتنوں میں چینی پتھر کی پلیٹس، مَگز اور گلدان وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ برتن توڑنے کی وجہ سے جو فرش گندا ہوتا ہے وہ سارا بکھیرا دولہا اور دولہن کو صاف کرنا پڑتا ہے۔ رشتہ دار ان لمحات کو بہت انجوائے کرتے ہیں اور دولہا دولہن کے حوالے سے یہ رسم ان کی باہمی محبت اور خوش قسمتی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔   

Advertisement

ظاہری اعمال کی بنیاد پر پرکھنا

ترکی کے خلیفہ سلطان مراد کی ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، اس نے ایک رات اپنے ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ کو کہا کہ ،
ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ _
ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ گرﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ . ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ،
ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺑﮭﺎﺋﯽ _

ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ . ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ؟_

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺁﺩﻣﯽ ﻣﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ . ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ .

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ _

ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﯿﮟ _

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺖ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ _

ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ .

ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ ﮔﮱ _

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﮯ .

ﻭﮦ کہہ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ،
ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺑﯿﺸﮏ ﺗﻮ ﺍﻟﻠّﻪ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ .

ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ _ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ . ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ .

ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ _ ﺍﺻﻞ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺟﺘﻨﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﮔﮍﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺘﺎ . ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ .
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﮯ . ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ _
ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ، ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠّﮧ ! ﺁﺝ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮫ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ _
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ! ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﺎ ﮨﮯ _
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﮔﮭﺒﺮﺍ ﻣﺖ _ ﺗﻮﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ .

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﻮﮞ . ﮐﻞ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ . ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ .

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ .

ﺁﺝ ﮨﻢ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﯾﺎ ﻣﺤﺾ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﮨﻢ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﮔﻮﻧﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔۔

Slow eater kids


رافع شروع سے ہی کھانے پینے کے معاملے میں بہت تنگ کرتا تھا۔ اسے اپنی پورے دن کی روٹین میں سب سے برا وقت وہی لگتا تھا جب ماما کھانا لے کر آتی تھیں۔ اس وقت دو سالہ رافع ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کرتا کیونکہ اسے کھانا کھانا پسند نہیں تھا۔۔
ماما ہر بار کوئی نئی ورائٹی بناتیں۔۔ کبھی poems, کبھی نعت کبھی نغمے سنا سنا کر کھلانے کی کوشش کرتیں۔۔ کبھی کارٹون لگا کر دھیان بٹانے کی کوشش کرتیں کہ کسی طرح رافع ان کی بنائی ہوئی special dish کھائے۔۔۔
مگر رافع کبھی منہ بند کر لیتا
کبھی نوالہ منہ میں رکھ کر بیٹھا رہتا کہ اگر یہ نگل لیا تو ایک اور کھانا پڑے گا
کبھی رونے لگتا
ماما بے حد پریشان تھیں کیونکہ رافع اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت کمزور دکھنے لگا تھا ۔۔
مگر دوسری طرف رافع نئی چیزیں سیکھنے، سمجھنے میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھا۔۔
سب مشاہدہ کرتے تھے کہ رافع نے جلدی چلنا شروع کر دیا۔۔ انتہائی چھوٹی عمر میں صاف زبان کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔۔ ایک بار جو سن لیتا پھر بھولتا نہیں تھا۔۔ ورڈ وکیبلری میں اپنے سے تین سال بڑے بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔۔
پانچ سال کا ہونے تک کھانے پینے کا مسئلہ تقریباً حل ہو گیا تھا۔۔ بلکہ رافع اب خود فرمائش کر کے کچھ نہ کچھ بنوایا کرتا تھا۔۔
مگر دوسری طرف پڑھائی اور creativity میں اللہ نے اسے جو کمال کا ذہن دیا تھا اسے دیکھ کر ماما اپنی ساری تھکن بھول جاتی تھیں اور ہر لمحے خدا کا شکر ادا کرتی تھیں۔۔۔

Ramadan Muslims

می وا نامی ایک جاپانی لڑکی آفس کولیگ تھی۔۔ رمضان شروع ہوا تو کہنے لگی یہ جو تم رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟
میں نے اسے بتایا کہ روزہ ایک عبادت ہے اور یہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزے کے دوران جھوٹ نہ بولنا، ایمانداری سے اپنا کام کرنا، پورا تولنا، انصاف کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔ اور تمام برے کاموں سے بھی بچنا ہوتا ہے
بڑی سنجیدگی سے بولی
آپ کے تو مزے ہیں جی ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا ہوتا ہے اور آپ کو بس ایک مہینہ

(اشفاق احمد کی ڈائری)

آلو کے پراٹھے



شادی کے بعد جوائنٹ فیملی سسٹم میں عائشہ ایڈجسٹ کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ سب کو خوش رکھنے کیلئے لگی رہتی۔ کبھی کسی کے چہرے پر اپنے لیے ناراضگی دیکھتی تو بات کی تہہ تک پہنچ کر اس ناراضگی کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتی۔
شادی کو کئی مہینے گزر چکے تھے۔۔اچھی بہو، اچھی بھابھی، بننے کے چکر میں وہ بھول چکی تھی کہ اسے اچھی بیوی بھی بننا تھا۔
ایک شام دیور صاحب نے آلو کے پراٹھوں کی فرمائش کی تو اچھی بھابھی فوراً سامان تیار کرنے لگی۔
میاں صاحب گھر آئے تو روز کی طرح آج بھی وہ کچن میں مصروف تھی۔ اسے احساس تھا ان کی تھکن کا اسی لیے تو پہلا پراٹھا انھیں دیا۔۔۔ اور پھر باقی گھر والوں کیلیے بنانے لگی۔
پراٹھے مزے کے تھے۔ ہر فرد ایک کے بعد دوسرے پراٹھے کی فرمائش کر رہا تھا یہاں تک کے پراٹھوں کا سامان ختم ہوا تو عائشہ کو سانس ملا۔۔۔ خیر خود بھی کھانا کھا کے رات ساڑھے دس بجے اپنے کمرے میں گئی تو حسن انتظار کرتے کرتے سو چکے تھے۔۔
اگلی صبح وہ بغیر ناشتے کے کام پر نکل گئے۔۔ اور اگلے دو دن انہوں نے عائشہ سے کوئی بات نہ کی۔
اس شام گھر آئے تو عائشہ نے زور دے کر پوچھا کہ آخر کیوں ناراض ہیں مجھ سے
تمہیں کیا لگے۔۔۔ تم کھلاؤ جا کے سب کو آلو کے پراٹھے۔۔۔
حسن نے بالآخر اپنی بھڑاس نکال دی۔۔۔
تو یہ بات ہے۔۔ انھیں میرا وقت چاہئیے جو میں چاہ کر بھی نہیں نکال پاتی۔۔
اور پھر عائشہ وقت نکالنے لگی۔۔ اپنے سر اٹھائی ذمہ داریوں میں کمی لا کر وہی وقت حسن کے ساتھ گزارنے لگی۔۔ کبھی چھت پر چہل قدمی کرنا۔۔ کبھی باہر آئس کریم کھا نے چلے جانا۔۔ حسن کے گھر آتے ہی وہ سب کام چھوڑ دیتی۔۔ دونوں میں انڈرسٹینڈنگ بڑھنے لگی۔۔ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے لگے۔۔
اس نے نوٹ کیا کہ اس کی اس پریکٹس پر سسرال والوں کے مزاج بگڑ رہے ہیں لیکن اس نے صبر سے کام لیا۔۔۔۔
کیونکہ آلو کے پراٹھوں نے اسے یہ بات سمجھا دی تھی کہ اپنا وقت اس اینٹ پر انویسٹ کرنا ضروری ہے جو اس گھر میں اس کی مضبوطی اور خوشیوں کی ضامن ہے۔۔

شب برات۔۔ ایک مبارک رات

امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ j سے طویل حدیث مبارکہ بیان کی:
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ j بیان کرتی ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لیے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ j نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوئوں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالت سجدہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے:
{أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْهُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ}
( بيهقی، شعب الايمان، 3/ 383-385)

How to care your child while winter season transitions to summer

Here are some tips for taking care of kids as the winter season transitions to summer:

  1. Dress appropriately: As the weather gets warmer, make sure to dress your child in light, breathable clothing that will keep them cool and comfortable. Choose materials such as cotton or linen and avoid synthetic fabrics that can trap heat and cause sweating.
  2. Protect their skin: With the increase in sunshine, it’s important to protect your child’s skin from the harmful effects of UV rays. Use a sunscreen with at least SPF 30 and apply it 15 minutes before going outside. Reapply every two hours or more often if your child is sweating or swimming.
  3. Stay hydrated: In warmer weather, it’s important to keep your child hydrated. Encourage them to drink plenty of water and offer them fruits and vegetables with high water content such as watermelon, cucumber, and oranges.
  4. Be mindful of allergies: Spring and summer can bring seasonal allergies such as hay fever. Keep an eye on your child’s symptoms and talk to their doctor if you suspect they may have allergies.
  5. Take precautions against bugs: With warmer weather comes an increase in bugs such as mosquitoes and ticks. Use insect repellent on your child and dress them in long-sleeved shirts and pants when spending time outdoors.
  6. Adjust sleep schedules: The longer daylight hours in the summer may disrupt your child’s sleep schedule. Gradually adjust their bedtime to ensure they are getting enough sleep.
  7. Be prepared for outdoor activities: With the warmer weather, your child may want to spend more time outside. Make sure they have appropriate shoes for running and playing, and consider investing in protective gear such as helmets and knee pads for biking and other activities

بچوں کی ہر بات توجہ سے سنیں

سات سالہ حذیفہ کا آج سکول میں جھگڑا ہوا تھا۔ گھر آ کر بھی اس کا غصہ نہیں اترا تھا۔ یونیفارم چینج کر کے اس نے کھانا کھایا اور ماما سے بات کرنے کی غرض سے الفاظ اکٹھے کرنے لگا۔ اپنے ذہن میں بڑی مشکل سے اس نے بات ترتیب دی اور ماں کے پاس جا کے بولا
ماما۔۔۔۔
ماما فون پر بزی تھیں۔۔
بیٹا ٹیوشن کا ٹائم ہو رہا ہے جلدی تیاری کرو
ماما وہ آج۔۔۔۔۔
جلدی کرو بیٹا جاؤ شاباش۔۔۔۔
ماما نے موبائل سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر۔۔۔۔حذیفہ کے چہرے پر آنے والے رنگ اور تاثرات جانے بغیر اس کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے کہا
اور حزیفہ ٹیوشن چلا گیا۔۔۔۔
عشاء کے بعد جب ٹیوشن سے واپس آیا تو ایک بار پھر ماما کو بتانا چاہا لیکن وہ کچن میں بزی تھیں پاس موبائل پر کوئی ڈرامہ چل رہا تھا وہ بھی دیکھ رہی تھیں۔۔۔ لہذا اس بار بھی حذیفہ کو ہدایت کی کہ تنگ نہ کرے۔۔بس کھانا کھائے اور سو جائے۔۔۔۔ حذیفہ کا دل چاہا کہ یہ موبائل کہیں غائب کر دے تاکہ ماما اس کی بات سن سکیں۔۔۔لیکن وہ کبھی ایسا نہ کر سکا
۔
۔
۔
اٹھارہ سالہ حذیفہ موبائل پر بزی تھا۔۔ ماما بات کرنا چاہتی تھیں کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائے۔۔۔ بیٹا بڑوں کی بات توجہ سے سننی چاہئے
جی ماما۔۔۔
حذیفہ نے موبائل سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا
۔
۔
اکلوتے بیٹے کی یہ بے مروتی انھیں اندر سے توڑ کے رکھ دیتی تھی۔۔۔۔ حذیفہ بات سنو میری۔۔۔ وہ ذرا سختی سے اس کے ہاتھ سے موبائل تقریباً چھینتے ہوئے بولیں
۔
۔
حذیفہ مزید چڑ گیا۔۔۔ ماما پلئیر مار دیا میرا۔۔۔ مجھے نہیں سننی کوئی بات۔۔
۔
۔
۔
ماما کا دل چاہا حذیفہ کا موبائل توڑ دیں تاکہ وہ ان کی بات تو سنے۔۔۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسم اللہ

پارک میں کھیلتے ہوئے اچانک احمد کو کسی پتھر سے ٹھوکر لگی۔
بسم اللہ
پاس کھڑی اسکی ماما کے منہ سے نکلا
تین سالہ احمد کو یہ لفظ سننے کی عادت تھی۔ اسے ٹھوکر لگتی، وہ گر جاتا یا کہیں ٹکراتا تو ماما کے منہ سے بسم اللہ ضرور نکلتا تھا۔۔۔۔۔
بڑا ہوتے ہوتے احمد کی زبان پر یہ لفظ ازبر ہو چکا تھا۔۔۔ ہر مشکل پریشانی میں پہلا لفظ اس کے منہ سے بسم اللہ ہی نکلتا تھا۔۔۔

وہ زلزلے کے جھٹکوں سے ہڑبڑا کر اٹھا اور بسم اللہ کا ورد کرتے ہوئے خود کو بیڈ کے نیچے گھسانے کی کوشش کی اور ایک دھماکے کے ساتھ چھت اوپر آن گری۔
۔
۔
ترکی میں شدید زلزلے کی تباہی کاریاں۔۔۔ پوری دنیا سے امدادی ٹیمیں ترکی پہنچ رہی تھیں۔۔۔دل و روح پر لرزا طاری کر دینے والے مناظر تھے
۔
۔
تبھی ایک بیس سالہ نوجوان کو پورے نوے گھنٹے بعد اس حال میں ملبے تلے سے نکالا گیا کہ وہ نیم بیہوشی کی حالت میں بسم اللہ کا ورد کر رہا تھا۔

بلا شبہ مصیبت میں اللہ کا نام ورد زبان رہنا اسکی بہت بڑی عطا ہے۔۔۔ لیکن والدین کا اس میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے

براہ مہربانی خوش رہنے دیں

کیا یہ تربیت کر رہی ہو بچے کی؟ بہت ہی بدتمیز ہے تمہارا بچہ سمجھاتی نہیں اسے؟
اپکا بچہ تو بہت ضدی ہے، کسی کی سنتا ہی نہیں ہے۔اسے تمیز سیکھاؤ۔
اپکا بچہ ہر ٹائم روتا رہتا ہے۔ کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ!
اور ایسے ہزاروں الفاظ!!
یقین کریں، دکھ دیتے ہیں! دل کی بات بتا رہی ہوں آپکو، بلکل اچھے نہیں لگتے، زخمی کرتے ہیں جذبات کو، اور کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔
ہر ماں جب صبح اٹھتی ہے تو اس کے سامنے چیلنجز کا پہاڑ کھڑا ہوتا ہے۔
وہ نئے سرے سے اپنی ہمت باندھتی ہے اور شروع ہو جاتی ہے، پلیز کسی کی ہمت نہ توڑیں اگر اپ حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے۔
کیا پتہ رات کے کس پہر تھک ہار کے وہ سوئی ہو یا پھر سوئی ہی نہ ہو!
کس کو طنز اور لیکچر اچھے لگتے ہیں؟
کیا آپ کو؟ اس ماں کو بھی روکنا ٹوکنا، طنز اور آپکے فضول لیکچر نہیں چاہیے!
ماؤں کا دل بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ اور کوئی بھی ماں نہیں چاہتی کہ اس کا بچہ ضدی اور بد تمیز بنے۔۔۔ اپنے الفاظ کی قیمت جانئے اور انکو فضول ضائع نہ کریں اور کسی کی بھی تکلیف باعث نہ بنیں۔
خوش رہیں اور خوش رہنے دیں۔

%d bloggers like this: