Design a site like this with WordPress.com
Get started

ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریمﷺکی سیاسی زندگی۔ مختصر اور جامع خلاصہ

بطور ملت، امت مسلمہ کے سیاسی اور کا آغاز ہجرت مدینہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہجرت مدینہ سے ہی کیا گیا۔ اس سے پہلے مکہ میں مسلمان اقلیتی حیثیت رکھتے تھے اور کفار کے ظلم وستم کاشکار تھے۔ مدینہ میں مسلمان اکثریت میں تھے لہذا اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہجرت کے بعد بھی کفار مکہ مسلسل مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے تھے اور یہودیوں اور مدینہ کے دیگر باشندوں کو خطوط کے ذریعے مسلمانوں سے جنگ پر ابھار رہے تھے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے نبی کریم ﷺ نے ضروری اقدامات فرمائے۔ سب سے پہلے مدینہ میں آباد مختلف مذاہب کے پیروکاروں اور ارد گرد کے قبائل کو ایک معاہدے کا پابند کر کے کمال حکمت سے اندرونی اضطراب پر قابو پانے کی کامیاب کوشش فرمائی ۔ یہ معاہدہ تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں سب نے نبی کریم ﷺ کو ریاست کے سر براہ کی حیثیت سے تسلیم کیا اور مدینہ پر حملے کی صورت میں مل کر دفاع کرنے کا عہد کیا۔ اس معاہدے کے بعد آپ ﷺ نے کفار مکہ کی اہل اسلام کے خلاف سازشوں کو روکنے کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ اس کا آسان اور مؤثر طریقہ یہ تھا کہ ان کی تجارتی شاہر اوپر اپنی گرفت مضبوط کی جائے ، جو بحر احمر کے کنارے کنارے یمن سے شام کی طرف جاتی تھی۔ اس شاہراہ پر اہل مکہ طائف اور دوسرے قبائل کے تجارتی قافلے اپنا بیش قیمت سامان لے کر جاتے تھے۔ مالی تجارت سے لدے ہوئے دو دو ہزار اونٹوں کے قافلے بیک وقت چلتے تھے۔ نبی کریم  ﷺنے پہلے اس شاہراہ کے ارد گرد آ باد قبائل سے دوستی کے معاہدے کیے تاکہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی صورت میں قریش ان قبائل کو ساتھ نہ ملا سکیں۔ پھر کفار مکہ کو مرعوب کرنے کیلئے ان شاہراہوں پر چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کر دیئے۔  عبد الحمید صدیقی لکھتے ہیں کہ قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر تیاریاں شروع کر دیں تا کہ اسلام کی طاقت کو کچلا جاسکے۔ لیکن اس فیصلہ کن جنگ سے پہلے انھوں نے مدینہ کے ارد گرد موجود غیر مسلم قبائل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کیلئے ان قبائل پر مسلمانوں کے مقابلے میں اپنی طاقت کا اظہار ضروری سمجھا۔

 نبی کر یم ﷺ ان کی سازشوں سے آگاہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے اہلِ مکہ پر دھاک بٹھانے کیلئے ان کی تجارتی شاہراہ کی طرف چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے۔ اپنے قافلے  کی حفاظت کیلئے ہی مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا اور اس طرح بدر کے مقام پر حق و باطل کا پہلا معرکہ پیش آیا جس میں اللہ تعالی نے اپنی مدد و نصرت سے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی۔ اگلے سال احد کے مقام پر  جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا البتہ جنگ بغیر کسی جیت ہار کے ختم ہو گئی۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی مسلمانوں نے خندق کھود کر نہایت حکمت عملی سے مدینہ کی حفاظت کی۔ پھر ۶ھ/ ۶۲۸ء میں مسلمان نبی کریم ﷺ کی معیت میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ روانہ ہوئے ۔ ان کی تعداد چودہ سو سے پندرہ سو کے درمیان تھی اور قربانی کیلئے ستر اونٹ ساتھ تھے ۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر عمرہ کی نیت سے احرام بندھا گیا۔ لیکن جب مکہ والوں کو نبی کریم ﷺ کی آمد کا پتہ چلا تو وہ  سمجھے کہ آپ مکہ پر قبضے کی غرض سے آئے ہیں لہذا آپ کو مکہ داخلے سے روک دیا گیا اور عمرہ کی ادائیگی کی اجازت نہ دی گئی۔ باہمی بات چیت اور مذاکرات کے بعد فریقین میں صلح کا ایک معاہد ہ ہو گیا جس میں یہ طے پایا کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ ادا کر لیں۔ نیز آئندہ د س سال کیلئے فریقین میں جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور طے پایا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہے مکہ والوں کے ساتھ مل جائے اور جو چاہے نبی کریم ﷺ کا حلیف بن جائے۔  قرآن  نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔

اس معاہدے کے نتیجے میں جنگ بندی ہونے کے باعث امن و سکون ہو گیا اور نبی کریم نے دوسرے ممالک کو بھی بذریعہ خطوط اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا۔ صلح حدیبیہ کے بائیس ماہ  بعد قریش اور ان کے حلیف بنو بکر نے ایسی حرکت کی جس کے باعث حدیبیہ  کا معاہدہ صلح کا لعدم ہو گیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ کے نتیجے میں بنو بکر  نے قریش کے ساتھ اور بنو  خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد بنو  خزاعہ  بہت امن و سکون کے ساتھ رہ رہے تھے جب ایک رات بنو بکر نے قریش کے ساتھ مل کر بنو خزاعہ پر شب خون مارا  اور ان کا قتل عام کیا۔ بنو خزاعہ  نے نبی کریم ﷺ  کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ظلم وستم کی یہ روداد بیان کی اور مدد کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے ایک قاصد کو مکہ روانہ فرما کر مکہ والوں کے سامنے یہ تجاویز پیش کیں:

۱ بنو خزاعہ  کے مقتولوں کی دیت اداکر یں۔        یا

۲۔بنو بکر سے اپنی دوستی کا معاہدہ ختم کر دیں تا کہ مسلمان ان سے براہ ر است بدلہ لے سکیں۔ یا

۳۔ صلح حدیبیہ کو   اعلانیہ طور پر کالعدم قرار دے دیں۔

یہ انتہائی منصفانہ تجاویز تھیں۔ اہل مکہ نے پہلی دونوں تجاویز کورد کرتے ہوئے صلح حد جیسے کو اعلانیہ طور پر کالعدم قرار دے دیا۔  قریش کی اسی بد عہدی کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی اور اہل مکہ کی طرف سے ہتھیار ڈالنے پر سب کیلئے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ یوں ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح ہو گیا اورنبی کریم ﷺ نے کعبہ میں موجود تمام بتوں کو توڑ دیا۔ آپ ﷺ کی رحمدلی سے متاثر ہو کر اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ مکہ فتح ہونے سے کفار مکہ کار عب ود بد بہ اور اسلام کی مخالفت ختم ہو گئی اور دیگر قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ پھر دو سال بعد دس ہجری میں نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ حج بیت اللہ ادا کیا۔اس موقع پر آپ نے ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے ۔اس خطبہ میں آپﷺ نے مسلمانوں کو زندگی کے ہر پہلو سے متعلق نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: اے اللہ کیا میں نے تیرے احکامات بندوں تک پہنچادیئے۔ سب حاضرین نے عرض کیا کہ جی ہاں ، آپ ﷺنے احکامات الٰہی ہم کو پہنچادیئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ ہو جا۔  حجۃ الوداع کے دو ماہ بعد ربیع الاول 11 ہجری میں نبی کریم ﷺ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔اس وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔  اور آپﷺکی صرف تئیس برس کی تبلیغ کےنتیجے میں تقریباً پورا عرب اسلام کے سائے تلے اکٹھا ہو چکا تھا۔

Advertisement

Canned, Processed and Frozen Foods in Market – How they affect our health

Normally we process our food at home by drying, freezing, cooking and frying. But in this article we are going to discuss the processed food available in markets. They might be in the form of canned foods, frozen items, fast foods, packed juices, cold drinks or junk foods. Whenever we purchase a food item, we should see its ingredients list, more ingredients means more processed and so more harmful for health. Especially if you do not recognize the ingredients mentioned on packing, don’t go to that item, as it will be more harmful for your health. We can observe that there are only few ingredients mentioned on the packing of organic foods.

The highly processed foods are rich of sugar and salt and have preservatives to keep it fresh for long time. Moreover many healthy ingredients have been removed from theses processed foods. The reason is same to keep them fresh for long. So these foods (commonly) have a very low amount of fiber, protein, vitamins, minerals and high amount of salt and fat than the other nutritious foods.  

As you can observe that the fresh fruits, veges or the nutritious and organic food does not remain eatable after few days but the canned and packed food of market remain fresh and eatable for a long time. The ingredients that kill the germs and don’t allow them to grow up in food can also harmful for our health.

We give you an example; when we spray an insect killer substance at home we try to keep us and our children away from it and use mask, so it cannot harm us. But we happily eat a food in which germ killer (preservatives) has been used. Many diseases that our people are suffering from, today, are due to eating these unhealthy processed foods. Here we are going to share a list of these foods that reduce the years of our life and slowly kill our health.

  • Soft Drinks, energy drinks, sugary shakes, packed fruit punch
  • Cold drinks and protein shacks
  • Packed or canned breakfast cereals, sweetened oatmeal
  • Packed salted snacks i.e. chips
  • Packed sweetened snacks i.e. cookies and candies and cakes
  • Packed breads and buns
  • Packed fast food such as pizza, burger
  • Packed Frozen meals, frozen meat
  • Sweet yogurt, margarine, processed ketchups and spreads, sweetened cheese

This is the list of common things that we use in routine life. The list of harmful market foods are far long than this one. So, we should try to avoid all these packed and processed food items and eat healthy nutritious home-made and fresh food to keep ourselves healthy and away from diseases.

سنوسی تحریک۔ جس نے لاکھوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کیا

سنوسی تحریک کے بانی  محمد علی بن سنوسی ۱۷۸۷ ء میں الجیریا میں پیدا ہوئے۔  انھوں نے قاہرہ اور مکہ سے تعلیم حاصل کی ۔ جہاں انھیں فقہ  اور حدیث کے عالم کی حیثیت سے شہرت ملی۔ انھوں نے مسلمانوں کے درمیان قبائلی اور علاقائی انتشار کو مسترد کرتے ہوئے اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت کو پھر سے اجاگر کیا۔  وہ مکہ کے ایک مشہور محدث اور مجدد صوفی احمد بن ادریس کے شاگرد تھے۔ انھوں نے اس عظیم مصلح کی پیروی کرتے ہوئے تصوف اور فقہ اسلامی کی اصلاحات  کیں جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ علماء اور صوفیاء کی تشریحات نے اسے تباہ کر دیا ہے۔ اس سوچ  نے انھیں بہت سے علماء اور صوفیاء سے منحرف کر دیا تھا۔ محمد علی بن سنوسی  اپنے استاد کی وفات کے بعد عرب سے لیبیا  میں آ گئے اور سنوسی تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک اصلاحی اور تبلیغی تحریک تھی جس نے وسطی اور مغربی افریقہ میں اپنے دفاتر کا ایک نیٹ ورک قائم کر لیا۔ سنوسی تحریک میں جنگی سرگرمیوں کے راستے کو بھی آگے بڑھایا گیا۔ صوفی مراکز اور خانقاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ یہ جگہیں نماز اور اصلاحات کے ساتھ ساتھ جنگی تربیت اور معاشرتی ویلفئیر کیلئے استعمال کی جا سکیں ۔ اس تحریک نے ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اور اسلام کی تبلیغ کا عہد کیا تھا۔ اگرچہ یہ لوگ بیرونی دنیا سے تو نہیں الجھتے تھے لیکن سنوسی کی اولاد نے یورپی استعماری نظام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنی شروع کر دی۔ ان کے پوتے نے اٹلی کی غاصبانہ حکومت کے سامنے رکاوٹ کھڑی کی اور آزادی کے موقع پر لیبیا کے شاہ ادریس اول بنے۔  زیادہ تر اخلاقی پہلو پر کام کرنے کے باوجود امام سنوسی نے بھی جنگِ عظیم اول میں جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ اس تحریک کے مراکز میں جنگی تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف پیشوں جیسے زراعت ، باغبانی ، پارچہ بافی ، معماری اور نجاری کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ باہمی تنازعات بھی انھی مراکز میں طے پاتے تھے۔ اس تحریک کے مبلغین کی تبلیغی کوششوں سے سوڈان ، صحرائے اعظم  اور مغربی افریقہ میں لاکھوں زنگی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ عام مسلمانوں کی اخلاقی حالت بہت حد تک سدھر گئی اور وہ مقامات جو پہلے جرائم پیشہ افراد کا مسکن تھے امر اور سلامتی کا گہوارہ بن گئے۔ غرض سنوسی تحریک نے اپنے پیروکاروں کے دِل میں احیائے اسلام کا جذبہ،  عالمگیر اخوتِ اسلامیہ کا داعیہ اور ملک کی عزت و آبرو کے لیے جان قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔

مھدی سوڈانی ۔ امام مھدی ہونے کا ایک جھوٹا دعویدار۔ کیسے اس نے پورے سوڈان پر قبضہ کیا

مھدی تحریک کا بانی محمد احمد بن عبداللہ نے امام مھدی ہونے کا دعوی کیا تھا۔ امام مھدی کے بارے میں نبی کریم ﷺ کی بشارت ہے  کہ وہ قیامت سے قبل تشریف لائیں گے اور مسلمانوں کی امامت کریں گے۔  محمد احمد کی یہ تحریک دیگر اصلاحی تحریکوں کے برعکس گمراہ تحریک اسی لیے کہلائی کیونکہ اس نے خود کو امام مھدی کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس نے لوگوں کو یہ ترغیب دی کہ بطورِ  امام مھدی  اس کی بیعت کریں اور دینِ اسلام کے متعلق اس کی تشریحات کو قبول کریں۔ مسلمانوں میں امام مھدی کی آمد سے متعلق جو عقیدہ موجود ہے ، محمد احمد نے اس عقیدے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ ابتدا میں اس کی طبیعت تصوف کی طرف مائل تھی۔ لہذا معمولی سی ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے ۱۸۶۱ ء میں سلسلہ سمانیہ میں شیخ محمد شریف کی بیعت کر لی۔  سات سال کی مریدی کے بعد شیخ صاحب نے اسےاپنے سلسلہ کی خلافت دے دی۔ کچھ عرصے بعد وہ ابا نامی جزیرے میں چلا گیا جو کوستی کے شمال میں واقع ہے۔ یہاں اس نے ایک جامع مسجد اور ایک خانقاہ تعمیر کروائی۔ لیکن ۱۸۸۱ء میں جب اس نے امام مھدی ہونے کا دعویٰ کیا تو اپنے مرشد شیخ محمد شریف سے اس کے تعلقات خراب ہو گئے۔  محمد احمد بن عبداللہ نے سوڈان کے تمام ممتاز لوگوں کے نام یہ مراسلات ارسال کرنا شروع کر دئیے کہ جناب سرورِ عالم ﷺ نے جس مھدی کے آنے کی اطلاع دی تھی وہ میں ہوں ، مجھے خداوند ِ عالم کی طرف نے سفارتِ کبریٰ عطا ہوئی ہے تاکہ میں دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دوں اور ان تمام خرابیوں کی اصلاح کروں جو لوگوں نے دینِ متین میں پیدا کر دی ہیں۔ مجھے حکم ملا ہے کہ تمام عالم میں ایک مذہب، ایک شریعت اور ایک ہی بیت المال  قائم کروں اور جو شخص میرے احکام کی تعمیل نہ کرے اسے ختم کر دوں۔ [1] اس وقت حالات ایسے تھے کہ مصری عوام حکومت کے ہاتھوں تشدد اور استحصال کا شکار تھی۔ لوگوں میں بد دلی اور بے اطمینانی پیدا ہوچکی تھی۔ ترکوں اور عربوں میں بھی نفاق تھا اور ترکوں کے حکمران طبقے سے اہلِ تشیع کی مخالفت چل رہی تھی۔ محمد احمد نے بھانپ لیا کہ یہ سب حالات اس  کے مھدیت کے دعویٰ کو بارآور ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ آغازمیں ہی اس کی تحریک معاشی اور معاشرتی خیالات سے مخلوت ہو گئی جو مشرق میں مذہب سے علیحدہ نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن آخر میں اس تحریک نے کچھ منفی رُخ اختیار کر لیا اور اصلاحی تحریک سے  سیاسی  اور عسکری تحریک کا روپ دھار لیا۔ محمد احمد نے پہلے تو لوگوں کو ترکوں کے خلاف جہاد کی دعوت دی  اور کئی سرداروں کو بیعت کے ذریعے اپنے ساتھ ملا لیا۔ پھر خرطوم کی حکومت کے ساتھ گفت و شنید میں ناکامی کے بعد اس کی طرف سے حکومت کی مخالفت جنگوں کی صورت اختیار کر گئی۔ انھی جنگوں کے نتیجے میں سارا سوڈان محمد احمد کے قبضے میں آگیا۔ محمد احمد خود تو زیادہ دیر حکومت نہ کر سکا لیکن اس کے بعد اس کے خلیفہ عبداللہ نے حکومت کی اور محمد احمد کے عقائد کو سختی سے نافذ کیا۔  اس کے دورِ حکومت میں اگر کوئی محمد احمد کو جھوٹا کہتا یا اس کے عقائد کو رد کرتا تو اسے موت کی سزا دی جاتی۔ مہرحال محمد احمد اپنے  امام مھدی ہونے کے جھوٹے دعویٰ اور اپنے باطل عقائد سے قطع نظر ایک بہت بہادر اور نڈر انسان تھے۔ اس نے کبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی اور انگریزوں کو سوڈان سے نکال باہر کیا۔ جبھی تو وہ ایک ایسے شجاع اور بہادر آدمی کے طور پر مشہور ہوا جو خاکِ مذلت سے اٹھ کر آناً فاناً سارے ملک کا فرمانروا بن گیا۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ محمد احمد نے اگر مھدی ہونے کا دعوی نہ کیا ہوتااور اسلام کے صحیح عقیدے سے گمراہ نہ ہوتا تو وہ اسلام کیلئے بہت کارآمد ثابت ہو سکتا تھا۔


[1] ابوالقاسم رفیق دلاوری، جھوٹے نبی، صفحہ ۵۲۵

7 Benefits of Yoga

Yoga has many health benefits. If you do not have any yoga practice before, you can start it very easily. Just watch given below yuga poses on youtube and practice them. Turn on the yoga videos on your mobile phone or laptop, put it in front of you and follow the postures. Some of the Yoga benefits are as under:

  1. Yoga Improves mental capability:

Yoga helps to improve mental health and thinking power. During yoga, we focus on inhale and exhale. Butterfly Pose & Extended Triangle Pose are very useful to improve mental capability. These are very simple postures and beginners can also try it very easily.

2. Yoga manages heart strength

Yoga improves the functioning of heart muscles and helps them to work better. If you feel fast heart beat or shorten of breath, you should try Downward Dog Pose. It will help your cardiac muscles to work in a better way.

3. Yoga strengthen the muscles

It is a very good practice to try Forearm Plank & Low Side Plank if you want to make your muscles strong. Many other yoga postures also help for the muscular strength.

4. Yoga helps to in stress management

Stress and anxiety generally make our life dull and useless. But fortunately we can manage it with the help of yoga. Savasana Pose is very helpful and highly recommended to overcome the stress.  

5. Yoga helps to sleep better

A good sleep is very important for a good health. Minimum eight hours of sleep is necessary for an adult person. Wide-Knee Child’s Pose (Balasana) helps to provide a sense of calm and convenience in this regard. We must try it for a better sleep.

6. Yoga increases flexibility in body and mind

Anger is very harmful for health and causes high blood pressure. Flexibility in body and mind is necessary to control the anger. The more you have flexibility in your mind and body, the more you will have power to control your anger. Must try Head to Knee (Janu Sirsasana) pose for flexibility.

7. Yoga can give relief in back pain

Back pain is very common among most of us (especially women). We can get rid of it by trying Supine Twist pose and Cat-Cow Pose.

کیا کسی دوسرے کا مذاق اڑانا۔۔۔ آپ کے اندر چھپے احساسِ کمتری کا اظہار ہے

ہمارے معاشرے میں کسی دوسرے کا مزاق اڑانا ایک بہت ہی کامن بات ہے۔ اور اسے تفریح کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ انتہائی  قریبی دوستوں میں تو  یہ ایک عام بات ہوتی ہے اور نارملی اس کا مقصد صرف تفریح ہی ہوتا ہے نا کہ کسی کو نیچا دکھانا یا اس کی بے عزتی کرنا۔ لیکن عام معاشرتی حلقوں بالخصوص فیملی گیدرنگ میں دوسرے کا مذاق اڑانے کا مقصد صرف تفریح نہیں ہوتا۔ جو بات کسی کو ویسے نہیں کہی جا سکتی وہ مذاق اڑٓنے کے انداز میں کر دی جاتی ہے۔ دوسرے کا مذاق اڑانے والاسمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ اس شخص کو باقی لوگوں کے سامنے نیچا دکھانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ 

لیکن! 

اگر آپ کبھی کسی کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں آپ کی انا کو تسکین ملتی ہے عجیب سی شیطانی خوشی ہوتی ہے تو مطلب آپ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ جی ہاں ! کسی دوسرے کا مذاق اڑا کر خوشی حاصل کرنا آپ کے اندر چھپی احساسِ کمتری کا اظہار ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ  (الحجرات49:11)

اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں.

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر  اس عمل سے منع فرمایا ہے جو شیطان کے راستے کی طرف لے جا سکتا ہے۔ آغاز ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں  سے ہی ہوتا ہے لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب یہ باتیں ہماری عادات بن جاتی ہیں اور اتنی پختہ عادتیں بن جاتی ہیں کہ ہم چاہ کر بھی ان عادات کو چھوڑ نہیں پاتے۔ اس لیے ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اور بُری عادتوں کو آغاز میں ہی کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ کیونکہ چھوٹا سا پودا اکھاڑنا  آسان ہوتا ہے لیکن درخت کاٹنا بہت مشکل  ہوتا ہے۔

اولاد کی اسلامی تربیت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ  (التحریم: 6)

اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم پر اپنے اہل و عیال کی اسلامی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اولاد کو نیکی کی تربیت دیں اور برائی سے بچنا سکھائیں۔ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر اسی وقت عائد ہو جاتی ہے جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس کا مشاہدہ اور شعور پروان چڑھتا جاتا ہے اور وہ اپنے والدین، گھر اور ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ایسے میں اسلام والدین پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تربیت کا ایسا ماحول مہیا کریں جس میں وہ اچھائی اور برائی کا شعور حاصل کر سکیں۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا

”مَانَحَلَ والدٌ أفضلَ مِنْ أدبٍ حسنٍ“․ (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲)

کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھا دے۔

حضرت علی ؓ نے  فرمایا:

’’ان (اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا قول ہے

”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے: ایک صدقہ جاریہ، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، تیسرے نیک اولاد جو ان کیلئے دعا کرتی رہے۔

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اولاد کی اگر دینی تقاضوں کے مطابق  تربیت کی جائے تو نہ صرف اس دنیا میں بلکہ مرنے کے بعد بھی انسان کو اس کا ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سے  ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن پر غور کر کے ہم بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کی کس نہج پر تربیت کرنی ہے۔ آپ مشاہدہ کریں کہ ماں باپ کی فرمانبردار اولاد وہی ہوتی ہے جن کی اسلامی تربیت کی گئی ہو۔ جنھیں بڑے چھوٹے کی تمیز سکھائی گئی ہو۔ جنھیں ان کے والدین نے  وہ تمام اخلاقیات سکھائے ہوں جو ایک اچھے انسان میں ہونے چاہئیں۔ یہی بچے بڑے ہو کر فرمانبردار اولاد، اچھا شوہر/بیوی، اچھے والدین اور اچھے بہن بھائی ثابت ہوتے ہیں۔ اور اگر والدین ’اعلیٰ تعلیم‘ تو دلوا دیں لیکن تربیت کی طرف کوئی توجہ نہ دیں تو ہر خاندان، ہر گھر غرض  پورے معاشرے کی جو بگڑی ہوئی  حالت ہے وہ آج ہمارے سامنے ہے۔

میرے خیالات

جب میں اپنی عملی زندگی دیکھتی ہوں تو خود کو اس قابِل نہیں پاتی کہ دوسروں کو اچھی بات کی تلقین کروں۔ کسی کو بتاؤں کہ ہمارا دین ہمیں کیا کہتا ہے۔ کِس معاملے میں قرآن اور حدیث کا کیا حکم ہے۔ دِل کہتا ہے پہلے خود کو تو مکمل کر لوں۔ سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے ، ہر گناہ سے بچنے کا بار بار عہد کرنے کے باوجودبھی،  نجانے کتنی غلطیاں اور کتنے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی میں کتنی ہی بار کوتاہی ہو جاتی ہے۔ نجانے کب کہاں کس کا دِ ل دکھا دیتی ہوں۔  یہ خیال آتے ہی قلم رُک جاتا ہے۔ آواز دَب جاتی ہے۔ کسی کو اچھی بات بتانے کیلئے جس اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ دِل زور سے دھڑکتا ہے  کہ دوسروں کو اس بات کی کیسے  نصیحت  کر رہی ہوں جب خود میں ابھی کمی ہے۔ اپنی ذات کو تو پہلے مکمل دین کے سانچے میں ڈھال لوں پھر دوسروں کو سکھاؤں۔

!لیکن پھر

:یہ پیاری سی حدیث ذہن میں آ جاتی ہے

نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ کَمَا سَمِعَ. فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ   (ترمذی، ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں) تک ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں علم پہنچایا جائے (براہِ راست) سننے والے سے زیادہ اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

یہ حدیث مبارکہ ذہن میں آتے ہی قلم میں حرکت آ جاتی ہے، آواز میں اعتماد آ جاتا ہے۔ مجھے دین کی بات دوسروں کو بتانی چاہئے ۔ ہو سکتا ہے دوسرےمجھ سے زیادہ عمل کرنے والے ہوں۔ میرے دین کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ اگر یہ سوچ لوں  کہ اپنی ذات کی ساری خامیاں دُور  کرکے پھر دوسروں کو دین کی بات بتاؤ ں گی تو شائد ساری زندگی خود کو ہی سدھارنے میں لگ جائے اور پھر بھی میں تقویٰ کے اعلیٰ درجے پر نہ پہنچ سکوں۔لہذا میں نے جو سیکھا ہے، جو سیکھ رہی ہوں ، آگے سکھانا چاہئے۔ اس طرح خود بھی عمل کا شوق بڑھے گا ، آیات و احادیث ہمہ وقت ذہن میں رہیں گی اور دوسروں کی دنیا و آخرت  سنوارتے سنوارتے یقیناً اپنی دنیا اور آخرت بھی سنور جائے گی۔  

سیلاب زدگان اور انفاق فی سبیل اللہ

ملک میں سیلاب تباہی مچا رہا ہے۔  ہر گزرتے دِن کے ساتھ دکھ درد  اور مشکلات سے دوچار لوگوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سیلابی  ریلوں نے  پوری پوری بستیاں ملیامیٹ کر دی ہیں۔ جہاں بہت سے لوگوں کی قیمتی جانیں  ضائع ہو رہی ہیں وہیں ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایسے میں انھیں کھانے پینے  ،پہننے اوڑھنے، بیٹھنے سونے   اور  زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔   

اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انھیں عطا فرمایا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّـلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (البقرۃ:3)

جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ تقویٰ ہمیں اللہ تعالیٰ کی  راہ میں خرچ کرنے پر ابھارتا ہے۔ اگر ہمیں  اللہ کے رستے میں مال  خرچ کرنا مشکل لگتا ہے یا دل نہیں چاہتا کہ اللہ کی مخلوق پر خرچ کریں تو مطلب ہم میں تقویٰ کی کمی ہے۔ اگر ہم قرآن کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اپنی راہ میں خرچ کیے گئے مال کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر عطا فرمائے گا۔  

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)، اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔

بخاری شریف کی حدیث ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔اور فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا ہے۔‘‘

آج ہمارے ملک میں سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے مخلوقِ خدا بہت مشکلات اٹھا رہی ہے۔ ایسے وقت میں اللہ کے رستے میں خرچ  ضرور کریں۔ اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں کی مدد کیلئے آگے بڑھیں ۔ مستند اداروں کو اپنی امداد جمع کروائیں  جن کے متعلق آپ کو یقین ہے کہ ان کے ذریعے امداد مستحقین تک پہنچ جائے گی۔ یقین رکھیں! اللہ کی راہ میں دیا ہوا آپ کا ایک ایک روپیہ کئی گنا ہو کر آپ کے پاس واپس لوٹے گا۔ اگر اپنے مال میں برکت چاہتے ہیں تو اللہ کی راہ میں خرچ ضرور کریں۔  اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل گھڑی میں مخلوقِ خدا کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کے راستے میں دِ ل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔            آمین  

خوشیوں کی چابی

خوشی اور غم۔۔۔

یہ دو جذبات ہماری زندگی پر ہمیشہ چھائے رہتے ہیں۔ ہر انسان ہمیشہ خوش رہنا چاہتا ہے لیکن پھر بھی کبھی حالات، کوئی نقصان، کسی پیاری چیز کا کھو جانا، کسی کا تلخ رویہ ہمیں دکھی کر دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ سکھ دکھ اپنے بس میں کہاں۔ دنیا ہے جنت نہیں ہے، جہاں صرف خوشیاں ہوں گی اور کوئی دکھ نہیں ہو گا۔ یہاں تو خوشیاں اور غم ساتھ ساتھ ہیں۔ بہت حد تک یہ بات درست ہے۔

!لیکن۔۔۔

آج میں بات کروں گی خوشیوں کی چابی کے بارے میں جو انسان کے غموں کو بہت محدود کر دیتی ہے۔ آپ کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ ہر وقت، ہر لمحہ۔۔۔ یہ کنجی حاصل کرنے کے بعد آپ کی بہت سی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔

ہم اس دنیا میں خود کو وابستہ کرتے ہیں، رشتوں، انسانوں، چیزوں، تعلقات اور احساسات کے ساتھ ۔ جس سے ہماری جتنی وابستگی اور محبت ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ جس چیز کو ہم نے اپنی زندگی میں جتنی زیادہ اہمیت دے رکھی ہوتی ہے، اس چیز کے ملنے سے ہمیں اتنی ہی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ مثلاْ اگر اپ کے پاس بائیک ہے اور اچانک آپ کو ایک برینڈ نیو کار مل جاتی ہے تو آپ کی خوشی کا کیا عالم ہوگا۔ لیکن یہی برینڈ نیو کار کسی ایسے انسان کو دی جائے جس کے گیراج میں پہلے سے دس نئی کاریں کھڑی ہیں تو اسے یہ کوئی خاص خوشی نہیں دے گی۔ چیز تو ایک ہی ہے مگر آپ کیلئے بہت زیادہ خوشی کا باعث اس لیے ہے کیونکہ آپ کی زندگی میں اس کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔

چلیں ہم ایک اور مثال لیتے ہیں۔ ایک کرائے کے گھر میں رہنے والے انسان کو دس مرلے کا گھر دے دیا جائے تو اس کیلئے یہ اتنی خوشی کی بات ہو گی گویا اس کی تمام خواہشات پوری ہو گئیں۔ لیکن اگر ایک چالیس کنال کے گھر میں رہنے والے شخص کو اسی دس مرلے کے گھر میں رہنا پڑے تو اس کے لیے اس سے بڑا دکھ کوئی نہیں ہو گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خوشی کا تعلق اس گھر سے نہیں تھا بلکہ اس احساس سے تھا جو اس گھر کی نسبت کسی کے دل میں تھا۔ کرائے پر رہنے والے کے دِل میں اس کی قدر تھی جبھی تو اس گھر نے اس کو خوشی دی۔ لیکن جو شخص چالیس کنال کے گھر میں رہ رہا تھا اس کیلئے یہ گھر کسی ڈربے سے زیادہ نہیں تھااس لیے اس گھر نے اسے دکھ دیا۔

تو بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے دِل میں دنیاوی رشتوں اور دنیاوی چیزوں کو بہت زیادہ اہمیت دے رکھی ہے جبھی تو ہمیں ان رشتوں اور چیزوں کے ملنے پر خوشی اور دور جانے پر غم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ خوشی کی چابی ہمارے ہاتھ میں رہے اور ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر غمگین نہ ہوں تو ہمیں اپنے دل سے دنیا و مافیہا کی اہمیت و محبت نکال کر اس کے خالق و مالک کی محبت پیدا کرنا ہو گی۔ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنا ہوگی۔ ہمارا رب ہم سے کبھی دور نہیں ہوگا۔ اس رشتے کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ کچھ مل جائے تو میرے رب کی عطا۔ دِل الحمدللہ پکارے گا۔ کچھ چھن جائے تو میرے رب کی مصلحت۔ دِل الحمد للہ پکارے گا۔ یہی خوشی کی چابی ہے۔ محبت، لگاوٗ اور تعلق صرف اللہ اور اسکے پیارے نبی سے۔ کیونکہ یہی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا تقاضا ہے۔ دنیاوی چیزوں کیلئے رنجیدہ یا خوش ہونا اسے زیب نہیں دیتا۔ اللہ کے نزدیک جس دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، اس دنیا کو اپنے دِل میں محبت اور اہمیت دینا خدا کے خلیفہ کے شایانِ شان نہیں۔

توجس شخص نے اپنے دِل سے دنیا کی اہمیت نکال دی اس نے خشیوں کی چابی حاصل کر لی۔

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ ۔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ

سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور تقوی اختیار کیا۔

%d bloggers like this: