سات سالہ حذیفہ کا آج سکول میں جھگڑا ہوا تھا۔ گھر آ کر بھی اس کا غصہ نہیں اترا تھا۔ یونیفارم چینج کر کے اس نے کھانا کھایا اور ماما سے بات کرنے کی غرض سے الفاظ اکٹھے کرنے لگا۔ اپنے ذہن میں بڑی مشکل سے اس نے بات ترتیب دی اور ماں کے پاس جا کے بولا
ماما۔۔۔۔
ماما فون پر بزی تھیں۔۔
بیٹا ٹیوشن کا ٹائم ہو رہا ہے جلدی تیاری کرو
ماما وہ آج۔۔۔۔۔
جلدی کرو بیٹا جاؤ شاباش۔۔۔۔
ماما نے موبائل سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر۔۔۔۔حذیفہ کے چہرے پر آنے والے رنگ اور تاثرات جانے بغیر اس کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے کہا
اور حزیفہ ٹیوشن چلا گیا۔۔۔۔
عشاء کے بعد جب ٹیوشن سے واپس آیا تو ایک بار پھر ماما کو بتانا چاہا لیکن وہ کچن میں بزی تھیں پاس موبائل پر کوئی ڈرامہ چل رہا تھا وہ بھی دیکھ رہی تھیں۔۔۔ لہذا اس بار بھی حذیفہ کو ہدایت کی کہ تنگ نہ کرے۔۔بس کھانا کھائے اور سو جائے۔۔۔۔ حذیفہ کا دل چاہا کہ یہ موبائل کہیں غائب کر دے تاکہ ماما اس کی بات سن سکیں۔۔۔لیکن وہ کبھی ایسا نہ کر سکا
۔
۔
۔
اٹھارہ سالہ حذیفہ موبائل پر بزی تھا۔۔ ماما بات کرنا چاہتی تھیں کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائے۔۔۔ بیٹا بڑوں کی بات توجہ سے سننی چاہئے
جی ماما۔۔۔
حذیفہ نے موبائل سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا
۔
۔
اکلوتے بیٹے کی یہ بے مروتی انھیں اندر سے توڑ کے رکھ دیتی تھی۔۔۔۔ حذیفہ بات سنو میری۔۔۔ وہ ذرا سختی سے اس کے ہاتھ سے موبائل تقریباً چھینتے ہوئے بولیں
۔
۔
حذیفہ مزید چڑ گیا۔۔۔ ماما پلئیر مار دیا میرا۔۔۔ مجھے نہیں سننی کوئی بات۔۔
۔
۔
۔
ماما کا دل چاہا حذیفہ کا موبائل توڑ دیں تاکہ وہ ان کی بات تو سنے۔۔۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کی ہر بات توجہ سے سنیں
